وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَؕ(۲۰)ہ
![]() |
quran |
آیت کا اردو ترجمہ ۔
اور اللہ کے سوا جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں وہ تو کسی شے کو پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ تو خود بنائے جاتے ہیں ۔
مزکورہ آیت کی معتبر تفاسیر سے تفسیر ملاحظہ فرمائیں{وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ:اور اللّٰہ کے سوا جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں ۔} مُستند مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس آیت میں مذکور لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ یعنی عبادت کرنا لکھا ہے جیساکہ ابو سعید عبداللّٰہ بن عمر بیضاوی، امام جلال الدین سیوطی، ابو سعود محمد بن محمد اور علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن معبودوں کی کفار عبادت کرتے ہیں۔(تفسیر بیضاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۳۹۱، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۲۱۷، ابو سعود، النحل،تحت الآیۃ:۲۰،۳ / ۲۵۶، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۲۳-۲۴) علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت کے لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں لفظ’’ دعا‘‘ عبادت کے معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۲۳)ابو اللیث سمرقندی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کفار اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ ا س بات پر قادر نہیں کہ کوئی چیز پیدا کر سکیں بلکہ وہ خود پتھروں اور لکڑی وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں ۔(سمرقندی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۲ / ۲۳۲) امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں وہ اپنی ذات میں بھی ناقص ہیں کہ انہیں دوسروں نے بنایا ہے اور اپنی صفات میں بھی ناقص ہیں کہ یہ کسی چیز کو پیدا ہی نہیں کر سکتے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۷ / ۱۹۵، ملخصاً)
اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍۚ-وَ مَا یَشْعُرُوْنَۙ-اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۠(۲۱)
مزکورہ آیت کا اردو ترجمہ
بے جان ہیں زندہ نہیں ہیں اور انہیں خبر نہیں کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے۔
تفسیر
{اَمْوَاتٌ:بے جان ہیں} امام ابنِ ابی حاتم اور امام محمد بن جریر طبری رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں’’یہ بت جن کی اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے بے جان ہیں ، ان میں روحیں نہیں اور نہ ہی یہ اپنی عبادت کرنے والوں کو کوئی نفع پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں۔(تفسیر ابن ابی حاتم، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۲۲۸۰، تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۵۷۳-۵۷۴) انہی بزرگوں کے حوالے سے امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ا س آیت کی یہی تفسیر دُرِّ منثور میں رقم فرمائی ۔( در منثور، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵ / ۱۱۹)امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں اگر یہ حقیقی معبود ہوتے تویہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرح زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ بے جان ہیں ، زندہ نہیں اور ان بتوں کو خبر نہیں کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے تو ایسے مجبور ، بے جان اور بے علم معبود کیسے ہوسکتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۱۹۵، ملخصاً) امام علی بن محمد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کتاب تفسیر خازن میں فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر یہ بت معبود ہوتے جیسا کہ تمہارا گمان ہے تو یہ ضرور زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی کیونکہ جو معبود عبادت کا مستحق ہے وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہ آئے گی اور بت چونکہ مردہ ہیں زندہ نہیں لہٰذا یہ عبادت کے مستحق نہیں ۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۱۱۸)ان کے علاوہ دیگرتمام مُستند تفاسیر جیسے تفسیر طبری، تفسیر سمرقندی، تفسیر بغوی ،تفسیر ابو سعود، تفسیر قرطبی اورتفسیر صاوی وغیرہ میں صراحت ہے کہ اس آیت میں ’’اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ‘‘سے مراد بت ہیں ، کسی بھی مستند مفسر نے ان آیات کا مصداق انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
اور اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْکو قرار نہیں دیا۔
صراط الجنان
راقم السطور محمدوسیم اکرم رضوی کشنگنجوی

